میانمار 20ستمبر (یو این آئی /ایس او نیوز) ایک وقت تھا جب آنگ سانگ سوچی میانمار میں جمہوریت اور آزدای ٔ اظہار کیلئے مہم چلا کر وہاں کے فوجی آمروں کے خلاف عوام کو کھڑا کیا تھا اور اب حال یہ ہے کہ میانمار میں ہر طرح سے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے جو انصاف اور جمہوریت پسند ہیں۔ روہنگیائیوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر دنیا کے احتجاج پر سوچی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور رائٹر کے صحافیوں نے فوج کی روہنگیا کے خلاف زیادتیوں کا پردہ فاش کیا تو انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ اب ایک اور معاملہ میں ایک شخص کو سات سال کی سزا سنائی گئی ہے۔
میانمار کی ایک عدالت نے ریاستی میڈیا کے سابق کالم نگار کو آنگ سانگ سوچی کے خلاف توہین آمیز فیس بک پوسٹ کرنے کے جرم میں 7 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق عدالت کی جانب سے دئیے جانے والے اس فیصلے کو ملک میں آزادی اظہار کے لیے خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ ینگون کی مغربی ضلعی عدالت کے ترجمان ہتھے آنگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ نجار من سوشے کو بغاوت پر مبنی بیانات پر گزشتہ روز سزا سنائی گئی تھی۔
عدالتی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’وہ (کالم نگار) سماجی رابطہ کی ویب سائٹ فیس بک پر اسٹیٹ کونسلر آنگ سانگ سوچی کے خلاف توہین آمیز پوسٹس تحریر کرنے کے جرم کا مرتکب ہوئے تھے۔ ان پوسٹس سے عوام کو آنگ سانگ سوچی کا غلط تاثر مل سکتا تھا۔‘‘ نجار من سوشے نے گزشتہ حمایت یافتہ فوجی حکومت کے ماتحت کالم نگار کی خدمات سر انجام دی تھیں۔ آنگ سانگ سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے 2016 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ ان کی جماعت کے خلاف شکایتی بیانات لکھتے رہے ہیں۔2013 میں امریکہo کے صدر براک اوباما نے آنگ سانگ سوچی کے گال پر بوسہ دیا تھا، جس کے خلاف پوسٹ کرنے پر نجار من سوشے کو 12 جولائی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ آنگ سانگ سوچی پر مذکورہ معاملے سے متعلق میانمار کے عوام خصوصاً یو ایس ڈی پی کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی، ان میں نجار من سوشے بھی شامل تھے جنہوں نے اسٹیٹ کونسلر کے خلاف تنقید کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا تھا
واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق حقائق سامنے لانے پر ریاستی قوانین توڑنے کے الزام کا سامنا کرنے والے 2 غیر ملکی صحافیوں کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ دونوں صحافیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی رپورٹنگ کے دوران ریاست کے خفیہ قوانین کی خلاف ورزی کی اور برطانوی سامراج کے زمانے کے رائج قوانین کے تحت اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال تک ہے۔ تاہم صحافیوں کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی اور اس بات پر زور دیا کہ گزشتہ برس ستمبر میں رخائن گاؤں میں 10 روہنگیا مسلمانوں کے ماورائے عدالت قتل کے حقائق سامنے لانے کے لیے انہیں وہاں بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ینگون پولیس کی جانب سے عشائیہ پر بلا کر انہیں گرفتار کیا گیا اور ان کی دستاویزات رکھ لی گئیں جس کے بعد انہیں خفیہ مواد رکھنے کے الزام میں حراست میں رکھا گیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس تین صحافیوں کو میانمار میں علیحدگی پسند گروپ ٹانگ نیشنل لبریشن آرمی (ٹی این ایل اے) کی رپورٹنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔